ہو مبارَک اہلِ ایماں عیدِمیلادُالنَّبی

ہو مبارَک اہلِ ایماں عیدِمیلادُالنَّبی

ہو گئی قسمت دَرَخشاں عیدِمیلادُالنَّبی


خوب خوش ہیں حُور و غِلْماں عیدِمیلادُالنَّبی

ہر مَلک مسرور و شاداں عیدِمیلادُالنَّبی


چار سُو ہیں کیا چھماچھم رحمتوں کی بارشیں

جھومتے ہیں ابرِباراں عیدِمیلادُالنَّبی


نور کی پُھوہار برسی چار سُو ہے روشنی

ہو گیا گھر گھر چَراغاں عیدِمیلادُالنَّبی


چار جانِب دُھوم ہے سرکار کے مِیلاد کی

جھومتا ہے ہر مسلماں عیدِمیلادُالنَّبی


عرش پر چاروں طرف صلِّ علیٰ کی دھوم ہے

آگئے ہیں نُورِ یَزداں عیدِمیلادُالنَّبی


غنچے چٹکے، پھول مہکے ہر طرف آئی بہار

ہو گئی صبحِ بہاراں عیدِمیلادُالنَّبی


جانتے ہو کیوں ہے روشن آسماں پر کہکشاں

ہے کیا حق نے چَراغاں عیدِمیلادُالنَّبی


ہم نہ کیوں روشن کریں گھر گھر دِیے مِیلاد کے

خود کرے جب حق چَراغاں عیدِمیلادُالنَّبی


عیدِمیلادُالنَّبی تو عید کی بھی عید ہے

بِالیقیں ہے عیدِ عِیداں عیدِمیلادُالنَّبی


عیدِمیلادُالنَّبی پر جو بھی کرتا ہے خوشی

اس پہ غُرّاتا ہے شیطاں عیدِمیلادُالنَّبی


آمِنہ کے گھر محمد کی وِلادت ہوگئی

خوب جھومو اہلِ ایماں عیدِمیلادُالنَّبی


آؤ دیوانو! چلو سب آمِنہ کے گھر چلیں

نور سے بھر لائیں داماں عیدِمیلادُالنَّبی


خوب جھومو اے گنہگارو! تمہاری عید ہے

ہو گیا بخشِش کا ساماں عیدِمیلادُالنَّبی


غم کے مارو! بے سہارو! بس تمہاری عید ہے

ہو گیا راحت کا ساماں عیدِمیلادُالنَّبی


بیقرارو! دلفِگارو! بس تمہاری عید ہے

کیوں ہو حیران و پریشاں عیدِمیلادُالنَّبی


غم نصیبو! اب غموں کا دُور اندھیرا ہوگیا

تم مناؤ خوب خوشیاں عیدِمیلادُالنَّبی


کِھل اُٹھے مُرجھائے دل اور جان میں جان آگئی

آگئے ہیں جانِ جاناں عیدِمیلادُالنَّبی


بے کسوں کے دن پھرے اور غم کے مارے ہنس پڑے

ہو گیا خوشیوں کا ساماں عیدِمیلادُالنَّبی


اِنْ شَآءَ اللہ آج ’’عیدی‘‘ میں ملے گی مغفِرت

ہے جبھی شیطاں پریشاں عیدِمیلادُالنَّبی


یانبی! اپنی وِلادت کی خوشی میں اپنا غم

دیجئے طیبہ کے سلطاں عیدِمیلادُالنَّبی


عیدِ میلادُالنَّبی کا واسِطہ عطّارؔ کو

بخش دے اے ربِّ رَحماں عیدِمیلادُالنَّبی

شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری

کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش

دیگر کلام

قدم اُٹھا تو لیا میں نے

دُنیا اُس کی ہے متوالی

اب اس منزل پہ عمر مختصر ہے

شمس الضحی ، بدر الدجی

جلد ہم عازِمِ گلزارِ مدینہ ہوں گے

اے وارث دنیا و دیں صد شکر ہوں منگتا تیرا

آنسو جو آئے آنکھ میں مثلِ گُہر لگے

مواجہ کے حضور آ کر چراغِ التجا رکھنا

فہم و ادراک سے ماورا شان ہے

معطر معطر پسینہ ہے ان کا