جب بھی گھیرا ہے دُکھوں نے تو ثنا خوانی کی

جب بھی گھیرا ہے دُکھوں نے تو ثنا خوانی کی

بہرِ تسکین درودوں کی فراوانی کی


لاکھ پردوں میں ترا حسن چھپایا رب نے

کوئی بھی مثل نہیں پیکرِ نورانی کی


ان کی دہلیز سے ہے ربط اگر غم نہ کرو

اُن کے ہوتے ہوئے کیا بات پریشانی کی


جس سفینے پہ ترا اسمِ مبارک دیکھا

اُس کی طوفان نے خود آکے نگہبانی کی


سب سلاطینِ جہاں بول اُٹھے حشر کے دن

ہائے افسوس کہ کیوں نہ تری دربانی کی


اِک نظر ڈال دے اے شاہِ عرب منگتے پر

اور تصویر بدل دے مری ویرانی کی


اپنے آقاؐ کی غلامی پہ سدا ناز رہے

آخرت میں بھی سند ہے یہی سلطانی کی


آپ کا پیارا ملا دولتِ کونین ملی

اب مجھے فکر کہاں بے سرو سامانی کی


دیکھ کر کیسے انوکھے ہیں فدائی تیرے

کفر تصویر بنا بیٹھا ہے حیرانی کی


رفعتِ نقشِ قدم ڈھونڈ سکے ناممکن

اتنی پرواز کہاں تختِ سلیمانی کی


ایسے مومن کیلئے قربِ نبیؐکی ہے نوید

تنگ دستوں کیلئے جس نے بھی آسانی کی


آپ سے پہلے تو بچھڑا رہا انساں رب سے

سجدہ ریزی کہاں قسمت میں تھی پیشانی کی


تیرے اصحابؓ کی تاریخِ بشر میں آقاؐ

کوئی بھی مثل نہ مل پائے گی قربانی کی


دعویِٰ عشق نہ کرنا کبھی اشکوں کے عوض

تجھ سے لاکھوں نے شکیلؔ ایسی ہی نادانی کی

شاعر کا نام :- محمد شکیل نقشبندی

کتاب کا نام :- نُور لمحات

دیگر کلام

دشمنِ جاں بھی ترے مدح سرا ہو جائیں

مرے جہان کی وسعت تری گلی تک ہے

آقاؐ حصارِ کرب سے ہم کو نکال دیں

نُور لمحات میں اب عشق سویرا ہوگا

پھر چراغاں ہوا گھر گھر مرے آقاؐ آئے

راحتیں ہوں نہ میسّر تری مدحت کے بغیر

مرے نبیؐ نے درِ خدا پر سرِ خدائی جھکا دیا ہے

شبِ معراج ہے کیا کچھ لُٹایا جارہا ہے

آئو ہم پیرویِ سیرتِ سرورؐ کر لیں

رُوبرو جب بھی قبائل ہوگئے