جبیں پہ نقش درِ مصطفؐےٰ کے لایا ہوں

جبیں پہ نقش درِ مصطفؐےٰ کے لایا ہوں

خدا کا قرب بہت دور جا کے لایا ہوں


اب اپنی صحتِ باطن کا مجھ کو فکر نہیں

طبیبِ عشق سے نسخے دعا کے لایا ہوں


نشانِ پائے محمدؐ تھے جا نماز مری

میں جا نماز سے کعبہ اٹھا کے لایا ہوں


ہر ایک سنگ کو چاٹا تھا میری آنکھوں نے

نظر میں ذائقے غارِ حرا کے لایا ہوں


مہکتے رہتے ہیں اندر گرے ہوئے آنسو

یہ عطرِ عشق وہیں سے لگا کے لایا ہوں


کروں گا جسم بدر اب ہر اک سیا ہی کو

چراغ خون کے اندر جلا کے لایا ہوں


مظفر اپنے وطن کی فضا سجاؤں گا

گلی سے آپؐ کی جھونکے ہوا کے لایا ہوں

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- صاحبِ تاج

دیگر کلام

دیار مصطفوی کے سفر کی بات کرو

عاشق جان نبی توں صدقے کردے رہندے

جس کو نسبت ہوئی آپ کے نام سے

کہوں گا حالِ دل سرکارِ عالم کملی والے سے

یہ دنیا ایک سمندر ہے مگر ساحِل مدینہ ہے

بسا ہوا ہے نبی کا دیار آنکھوں میں

زد میں دنیا تھی جب برائی کی

مدینہ پاک حُسنِ زندگی اے

مرجان نہ یاقوت نہ لعلِ یمنی مانگ

کر نظر کرم دی محبوبا بیکس ہاں میں لاچار ہاں میں