جاتی ہیں بارشوں سے کر کے وضو ہوائیں

جاتی ہیں بارشوں سے کر کے وضو ہوائیں

طیبہ میں جا کے ہوتی ہیں مشکبو ہوائیں


کوئے نبیؐ سے نکلیں تو پھر اماں نہ پائی

پھرتی ہیں ماری ماری یوں کو بہ کو ہوائیں


بادِ نسیم صبح کا رُتبہ ملا ہے اُن کو

کرتی ہیں مصطفیٰؐ کی جب گفتگو ہوائیں


شہر نبیؐ کی گلیوں سے ڈھونڈ کر ہیں لائیں

پھولوں میں بانٹتی ہیں جو رنگ و بو ہوائیں


ریگِ عرب کے ذرے لگتے ہیں چاند تارے

پانی سے کہہ رہی تھیں سرِ آب جو ہوائیں


مرے مصطفیٰؐ سا کوئی نہ ملا نہ مل سکے گا

سارے جہاں میں ڈھونڈا، پھریں چار سو ہوائیں


اشفاقؔ ہم بھی بھیجیں اپنا سلام اُنؐ کو

کہہ دیں اگر ’’مواجہ‘‘ کے رُو برو ہوائیں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراط ِ نُور

دیگر کلام

بے خود کیے دیتے ہیں انداز حجابانہ

دل ہے سفر ِ طیبہ کو تیار ہمیشہ

ملکِ خاصِ کِبریا ہو

جب مدینے کی طرف کوئی نکل پڑتا ہے

مدینے پہ چھائی بہارِ رسُول

آنکھوں کو جستجو ہے تو طیبہ نگر کی ہے

ثنا کی خو درودوں کی بدولت ساتھ رہتی ہے

جاری چودہ صدیوں سے فیضِ نعلِ سرور ہے

ترا زمانہ زمانوں کا بادشہ ٹھہرا

تِری ذات سب کے ہے سامنے تُمہیں جانتا کوئی اور ہے