کر کے طیبہ کا سفر آیا ہوں

کر کے طیبہ کا سفر آیا ہوں

دل میں لے کر میں سحر آیا ہوں


ہَے مِرے سامنے روضہ اُن کا

میں اُجالوں میں اُتر آیا ہوں


اُن کی دہلیز پہ آنکھیں رکھ دیں

اب مَیں خود کو بھی نظر آیا ہوں


ہر بلندی پہ ہے پرواز مِری

لے کے وہ طاقتِ پَر لایا ہوں


بارِ عصیاں نے ڈبویا تھا مجھے

ہَے کرم اُنؐ کا اُبھر آیا ہوں


بے ثمر شاخِ عمل تھی فیضیؔ

لے کے جھولی میں ثمر آیا ہوں

شاعر کا نام :- اسلم فیضی

کتاب کا نام :- سحابِ رحمت

دیگر کلام

تو حرف دُعا ہے مرے مولا مرے آقا

کوئی لمحہ بھی تیرے ذکر سے خالی نہ ہوا

سخیاں دے سخی سرور سردار توں صدقے

انگلی کا اشارہ ملتے ہی یک لخت قمر دو لخت ہوا

گیسوئے پاک میں واللیل کا نقشہ دیکھا

اُن پہ لکھنا شِعار ہے میرا

قافلہ سوئے مدینہ آرہا ہے ہو کرم

خُلق جن کا ہے بہارِ زندگی اُن پر سلام

نگاہوں میں چمکتا ہے یہ منظر سبز گنبد کا

دل کو شعور، ذہن گو گیرائی مل گئی