خدایا ! جائیں مکرر نبی کے روضے پر
جما لیں ہم وہیں بستر نبی کے روضے پر
اٹھائے نور کا دفتر نبی کے روضے پر
جھکا ہے گنبدِ بے در نبی کے روضے پر
سمجھتاہے درِ خیر البشر پہ خیر نہیں
اسی لئے نہ گیا شر نبی کے روضے پر
فلک پہ جا کے چمکتا ہے تب کہیں سورج
جبین گھِستا ہے آکر نبی کے روضے پر
پڑا ہےسکتے کےعالم میں دیکھ کر منظر
پرندہ فکر کا بے پر نبی کے روضے پر
خیالِ آیتِ لا ترفعوا رکھا ہم نے
زباں پہ قفل لگا کر نبی کے روضے پر
جمالِ روئے نبی کا ہے یہ کمال شفیقؔ
ہر ایک شے ہے منور نبی کے روضے پر
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا