کوئی ہنر ہے نہ مجھ میں کمال رکھا ہے

کوئی ہنر ہے نہ مجھ میں کمال رکھا ہے

مگر حضور نے مجھ کو سنبھال رکھا ہے


درودِ پاک میں کیسا کمال رکھا ہے

مصیبتوں کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے


نہیں ہے تابِ نظارہ یہ جانتی ہے مگر

’’ نظر نے دید کی حسرت کو پال رکھا ہے‘‘


سنوارتے ہیں وہیں سے وہ سب کا مستقبل

نبی کے پیشِ نظر اپنا حال رکھا ہے


فلک پہ چاند کی صورت میں حق تعالیٰ نے

مِرے حضور کا عکسِ جمال رکھا ہے


ہر اک سوال کی رکھی ہے آبرو شہ نے

جہاں سے جس نے بھی جیسا سوال رکھا ہے


شفیقؔ آپ نے گستاخِ مصطفےٰ کے لئے

سنا ہے جیب میں خنجر سنبھال رکھا ہے

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

رہے دل میں جو یاد ان کی

یا شفیع امم للله کر دو کرم

نظر میں بس گیا ہے گنبد و مینار کا جلوہ

روشن جن کے عشق سے سینے ہوتے ہیں

ہاتھ باندھے ہوئے خدمت میں کھڑی ہے دنیا

اللہ ہو جب اس کا ثنا گر‘ نعت کہوں میں کیسے

اَلبَدرُ سَرٰی مِن فَیضَتِہٖ

اتنی بلندیوں سے ابھر کر نہیں ملا

کہیں نہ دیکھا زمانے بھر میں

آئی رات معراج دی نورانی جاگے بھاگ نے او گنہاراں دے