نظر میں بس گیا ہے گنبد و مینار کا جلوہ

نظر میں بس گیا ہے گنبد و مینار کا جلوہ

بڑا ہی دل نشیں ہے روضۂ سرکار کا جلوہ


چمکتی نور کی کرنیں ضیا پاشی ہے ہر جانب

بڑا مسرور کرتا ہے حسیں دربار کا جلوہ


مرے آقا کے کوئے پاک میں ہر شے نرالی ہے

بڑا دلکش ہے گنبد سے جڑے مینار کا جلوہ


جہاں پھوٹی تھی پہلی روشنی نورِ ہدایت کی

کبھی جاکر تو دیکھو اُس حرا کے غار کا جلوہ


بہاریں دیکھتی ہیں شاد ہو کر جھوم اٹھتی ہیں

مدینے میں کھجوروں کے ہرے اشجار کا جلوہ


تڑپتا ہے مرا دل اور ترستی ہیں مری آنکھیں

دکھا دے ناز کو یارب تو اپنے پیار کا جلوہ

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

جنت دیاں بھاویں گھلیاں نے تے بھاویں عرش معلیٰ اے

(بحوالہ معراج)اور ہی کچھ ہے دو عالَم کی ہَوا آج کی رات

رکھ لیں وہ جو در پر مجھے دربان وغیرہ

اے فاتحِ اَقفالِ درِ غیب و حضوری

آدمی کیا پتھروں پر بھی اَثر انداز ہے

کبھی بادل کے رنگوں میں

دو جگ وچ رحمت ورھدی اے دو جگ دا سہارا آیا اے

جان ہیں آپؐ جانِ جہاں آپؐ ہیں

ایک ایک قولِ پاکِ شہِ دوسرا ہے سچ

عرشی فرشی رل کے دین مبارک باد حلیمہؓ نوں