مکاں ہے نور سے معمور لا مکاں روشن

مکاں ہے نور سے معمور لا مکاں روشن

چراغِ ذکرِ نبی ہے کہاں کہاں روشن


یقین ، عدل ، وفا ، علم ، صبر، سچائی

کیے نبی نے چراغوں کے کارواں روشن


اسی نے تلخ نوائی کی تیرگی میں کیا

زمینِ دل پہ محبت کا آسماں روشن


تمام رات مری فکرِ نعت میں گزری

تمام رات رہا ہے مرا مکاں روشن


صبیحؔ ارضِ وطن پہ ہو نور کی بارش

صدائے نعت سے ہوں ساری بستیاں روشن

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

میرے کملی والے دی تعریف سُن کے دل عاشقاں شاد ہندا رہوے گا

بھُلایا ہے تجھے تو ہر گھڑی آزار لگتی ہے

میں پا کے کفنی مدینے جاواں ناں فیر آواں کرو دُعاواں

آہ! شاہِ بحر و بر! میں مدینہ چھوڑ آیا

حاصل نہیں جو آگہی تو

نگاہِ حق میں مقامِ محمدؐی کیا ہے

روضۂ سرکار سے نزدیک تر ہونے کو ہے

جلوہ فرما ہو اگر شاہِ اُمَم کی صورت

بھر دیئے گئے کاسے، بے بہا عطاؤں سے

رونقِ بزمِ جہاں ہیں عاشقانِ سوختہ