محمد کے جلوے نظر آ رہے ہیں

محمد کے جلوے نظر آ رہے ہیں

حجابِ دو عالم اُٹھے جا رہے ہیں


درِ شہ پہ ہم یوں مٹے جا رہے ہیں

پئے زندگی ، زندگی پا رہے ہیں


صبا کوئی پیغام طیبہ سے لائی

گلستاں کے کانٹے کِھلے جا رہے ہیں


سنورتی ہے قدرت نکھرتی ہے فطرت

کچھ اس شان سے شاہِ دیں آ رہے ہیں


نہ روشن ہو کس طرح یہ چاند سورج

درِ مصطفیٰ سے ضیا پا رہے ہیں


وہ شمعِ حرم ہو کہ طورِ تجلّیٰ

حضور آپ ہی نور برسا رہے ہیں


دو عالم کے داتا نگاہِ کرم ہو

سگِ آستاں ٹھوکریں کھا رہے ہیں


صبیحِؔ سخن ور جو شُہرت ہے تیری

کرم تجھ پہ سرکار فر ما رہے ہیں

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

رسولِ خدا کی غلامی میں کیا ہے

علاجِ گردشِ لیل و نہار تُو نے کیا

خیالوں میں اُن کا گزر ہو گیا ہے

گنبدِ آفاق میں روشن ہُوئی شمعِ نجات

یا رب ثنا میں کعبؓ کی دلکش ادا مل

پرچم کشا جمال ہے شہرِ حبیبؐ میں

اے کاش! تصوُّر میں مدینے کی گلی ہو

یہ بلبل ،یہ تتلی، یہ خوشبو بنا کر

تاجدارِ حرم اے شہنشاہِ دِیں

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا