مجھ کو شہرِ نبی کا پتہ چاہئے

’’مجھ کو شہرِ نبی کا پتہ چاہئے‘‘

ہوں مریضِ محبت ، دوا چاہئے


آپ کے در کا منگتا ہوں میرے سخی

ہاں طلب سے بھی مجھ کو سوا چاہئے


منزلِ عاشقاں ہے درِ مصطفٰے ﷺ

ان کا در مل گیا اور کیا چاہئے


بس رضائے محمد ﷺ کا جویا ہوں میں

یعنی مجھ کو خُدا کی رضا چاہئے


حشر کے روز ہوں جب دہکتے بدن

مجھ کو سر پر کرم کی رِدا چاہئے


ہم بھی نارِ جہنم سے بچ جائیں گے

بس شفاعت تری دلرُبا چاہئے


چاند تاروں کو بھی روشنی کے لئے

چہرۂ مصطفٰے ﷺ کی ضیا چاہئے


بحرِ عصیاں تلاطم میں ہے چارہ گر

میری کشتی کو اِک ناخُدا چاہئے


میں کہ بے وقعت و بے ہنر ہوں جلیل

اُن کا دستِ کرم ہر جگہ چاہئے

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- مشکِ مدحت

وَرَفَعنَا لَکَ ذِکرَک

علیؑ تحریرِ نوری ہے علی مذکورِ مولیٰ ہے

جو سایہ ہی نہیں تیرا کہاں

لو ختم ہوا طیبہ کا سفر

نور حضرتؐ کاجو طیبہ کے نظاروں میں نہ تھا

رب کی ہرشان نرالی ہے

تو شاہِ خوباں، تو جانِ جاناں

مِرا تو سب کچھ مِرا نبی ہے

حبیبا اچی شان والیا

جوارِ گُنبدِ اَخضر میں