نور و نکہت کی ہونے لگیں بارشیں پھول رحمت کے ہر سو بکھرنے لگے

نور و نکہت کی ہونے لگیں بارشیں پھول رحمت کے ہر سو بکھرنے لگے

مرحبا مرحبا آ گئے مصطفیٰ سب کے بگڑے مقدر سنورنے لگے


اجڑا اجڑا تھا ہر سمت باغ جہاں غم کے طوفاں کہیں اور کہیں آندھیاں

آگئے جس گھڑی سرور دو جہاں حسن کے رنگ سارے نکھرنے لگے


رحمت مصطفیٰ جب ہوئی موجزن خوب چمکا مرادوں سے دل کا چمن

ہو گئی اپنے آقا سے جس کو لگن نام خیر الوریٰ پر وہ مرنے لگے


مصطفیٰ کی عنایت کے در کھل گئے ہر سخی کیلئے ہر گدا کیلئے

صدقے بٹنے لگے ہر سو سرکار کے ہم فقیروں کے کشکول بھرنے لگے


کوئی مشکل رہی اور نہ دنیا کا غم ہو گیا سرور دو جہاں کا کرم

لوگ نام نبی پر خدا کی قسم اپنا سب کچھ ہی قربان کرنے لگے


زیست کا لمحہ لمحہ امر ہو گیا مرحلہ جو بھی پیش آیا سر ہو گیا

میرا آباد دل کا نگر ہو گیا وہ خیالوں سے میرے گزرنے لگے


موہ لئے دو جہاں آپ کے پیار نے میٹھی میٹھی محمد کی گفتار نے

بول جو بھی کہے میرے سرکار نے بن کے خوشبو دلوں میں اُترنے لگے


زندگانی ہماری تھی زیر و زبر ہو گئی شاہ کون و مکاں کی نظر

غم کے دریا نیازی جو تھے جوش پر دھیرے دھیرے وہ سارے اترنے لگے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

سر عرشِ بریں لکھا ہوا ہے

روح مین کیفِ ثنا پاتا ہوں

دنیا میں اَور بھی ہیں مگر آپؐ آپؐ ہیں

فیض اُن کے عام ہوگئے

وکّھ نے رُتبے میرے نبی دے

درود دل نے پڑھا تھا زبان سے پہلے

ہے نظر جن عاشقوں کی کُوئے جاناں کی طرف

ہُوا جو اہلِ ایماں پر وہی احسان باقی ہے

تمہیں نے تو کیا ہم کو مسلماں یَارَسُوْلَ اللہ

ہم سے اب ہجر ہمارا نہیں دیکھا جاتا