پیام لائی ہے بادِ صبا مدینے سے

پیام لائی ہے بادِ صبا مدینے سے

کہ رحمتوں کی اٹھی ہے گھٹا مدینے سے


ہمارے سامنے یہ نازشِ بہار فضول

بہشت لے گئی ہے فضا مدینے سے


فرشتے سینکڑوں آتے ہیں اور جاتے ہیں

بہت قریب ہے عرش خدا مدینے سے


نہ آئیں جا کے وہاں سے یہی تمنا ہے

مدینے لا کے نہ لائے خدا مدینے سے


الہی کوئی تو مل جائے چارہ گر ایسا

ہمارے درد کی لا دے دوا مدینے سے


حساب کیسا نکیریں ہوگئے بے خود

جب آئی قبر میں ٹھنڈی ہوا مدینے سے


خدا کے گھر کا گدا ہوں فقیر کوئے نبی

مجھے تو عشق ہے مکے سے یا مدینے سے


چلے ہی آو مزار حسین پر سیماب

کچھ ایسی دور نہیں کربلا مدینے سے

شاعر کا نام :- سیماب اکبر آبادی

دیگر کلام

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

کرم بن گئی ہے عطا ہوگئی ہے

تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا

میرا دل اور مری جان مدینے والے

مل گیا ان کا در اور کیا چایئے

میسر جن کو دید گنبدِ خضریٰ نہیں ہوتی

حقیقت میں وہ لطفِ زندگی پایا نہیں کرتے

تنہائیوں میں جب بھی پڑھوں نعت مصطفٰی ﷺ

اگر میں عہد رسالت مآب میں ہوتا

ممنونِ کرم جس کا عرب بھی ہے عجم بھی