سارے عالم میں انوار کی روشنی

سارے عالم میں انوار کی روشنی

چار سُو ان کے افکار کی روشنی


تیرگی میرے من میں ہو کیسے بھلا

میرے اندر ہے سرکارؐ کی روشنی


پھر زمانے میں جھکتے نہیں ان کے سر

جن کے ہاتھوں میں تلوار کی روشنی


ان کے گھر میں رہے گا اندھیرا سدا

جن کو مطلوب اغیار کی روشنی


فصل بوتے ہیں جو حُسنِ اعمال کی

ان کو ملتی ہے اثمار کی روشنی


قافلے وہ ہی منزل تلک جا سکے

جن کو حاصل تھی سالار کی روشنی


جس نے ارض و سما کو منّور کیا

منبعِ نُور تھی غار کی روشنی


ٹھیرے ان کے صحابہ نجومِ فلک

مثلِ سورج ہے سردار کی روشنی


وہ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا کہیں

ان کے صدقے ہے سنسار کی روشنی


جب سے چوما ہے عُشّاق نے دار کو

بس امر ہوگئی دار کی روشنی


ہیں جلیل اس جہاں میں وہی سرخرو

جن کے دامن میں کردار کی روشنی

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- رختِ بخشش

جِس منگیا درد محبت دا اس فیر دوا کیہہ کرنی ایں

سر محفل کرم اتنا مرے سرکار ہو جائے

وہ حقیقی مردِ مومن، پیکرِ عزم و ثبات

قطرہ مانگے جو کوئی

سبز گنبد کی فضاؤں کا سفر مانگتے ہیں

اس قدر کون محبّت کا صِلہ دیتا ہے

جدوں یاد آوے دلدار

یہ ناز یہ انداز ہمارے نہیں ہوتے

صدائیں درودوں کی آتی رہیں گی

دربار نبیؐ میں جھکتے ہی