زائر جو بھی شہرِ مدینہ اپنے گھر سے جاتے ہیں

زائر جو بھی شہرِ مدینہ اپنے گھر سے جاتے ہیں

دل اپنا اُن کی چوکھٹ پر رکھا چھوڑ کے آتے ہیں


شاہ و گدا جو سائل بن کر آپ کے در پر جا پہنچے

اُس در سے وہ سارے بھکاری جھولیاں بھر کر لاتے ہیں


در قاسم کا وا ہے جب تو اور کسی سے کیوں مانگیں

لوگوں کے دامن میں خزانے ، آپ کے در سے آتے ہیں


لفظِ قُم سے حضرتِ عیسٰی ، مُردے زندہ کرتے ہیں

جانِ مسیحا مُردے ہی کیا ، پتھر سے بُلواتے ہیں


حرفِ مُشدّد کی مانند ، وہ دونوں جانب واصل ہیں

ہاتھ پکڑ کر بندوں کا وہ اللہ سے مِلواتے ہیں


اُن کی نگاہِ لطف و کرم میں، جو آیا شہکار ہوا

دیکھ لیں جس کو ایک نظر سے تو سردار بناتے ہیں


مومن کو ہے اُلفت تُجھ سے ، بُغض مُنافق رکھتے ہیں

سوچ ذرا یہ سرورِ عالَم حیدر سے فرماتے ہیں


نام جلیل اُن ہی کا ہر دم ، اپنے لب پر رہتا ہے

نوکر سے جو قبر تا محشر ، ہر جا ساتھ نبھاتے ہیں

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

مدینے کی طرف مائل رہے میری نظر آقا

عاشقانِ مصطفٰےؐ سب مل

رونق پہ جس کی مصر کا بازار بھی فدا

دل و نظر میں لیے عشقِ مصطفیٰؐ آؤ

اٹھی ہے جن کی جانب بھی

لب پر نعتِ پاک کا نغمہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے

کتابِ زیست کا عنواں محؐمّدِ عربی

روضے دی جالی دِسدی اے یاں گنبد خضرا وِسدا اے

آگئے نبیاں دے سردار آگئے نبیاں دے سردار

وہ جانِ قصیدہ