زمانے بھر کے ٹھکرائے ہوئے ہیں

زمانے بھر کے ٹھکرائے ہوئے ہیں

شہادر پر ترے آئے ہوئے ہیں


کرم کی بھیک ہے سب کی تمنا

سوالی ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں


عمل کا کوئی سرمایہ نہیں ہے

جھکی نظریں ہیں، شرمائے ہوئے ہیں


ندامت سے لرزتے چند آنسو

یہ نذرانہ ہے جو لائے ہوئے ہیں


انہی کا ہوگیا سارا زمانہ

جنہیں سرکار اپنائے ہوئے ہیں


کھلے ہوں پھول جب اشکوں کے ہر سو

سمجھ لیجئے کہ آپؐ آئے ہوئے ہیں


ظہوریؔ وہ سخن کی داد دیں گے

جگر پر چوٹ جو کھائے ہوئے ہیں

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- توصیف

دیگر کلام

پاؤگے بخششیں قافلے میں چلو

جب لگا آنکھ میں موسم ذرا صحرائی ہے

کتنے خوش بخت غم کے مارے ہیں

عاشقو وِرد کرو صَلِّ عَلٰی آج کی رات

سرکار پڑی جب سے نظر آپ کے در پر

زلف دیکھی ہے کہ نظروں نے گھٹا دیکھی ہے

ہر پھول کو فیضاں تری تعطیر سے پہنچا

دیدار دا عالم کیا ہوسی

میں ! کہ بے وقعت و بے مایہ ہوں

کرم چار سو ہے، جدھر دیکھتا ہوں