چلا ایک بچّہ سفر پر چلا
بہت دُور کی رہ گُزر پر چلا
اسے راہ میں کچھ بسیرے ملے
بسیروں میں ظالم لٹیرے ملے
لٹیروں نے جامہ تلاشی بھی لی
مگر اُس کی جیبوں میں کوڑی نہ تھی
انھوں نے کہا تُو ہی لڑکے بتا
تِرے پاس پیسہ نہیں کوئی کیا
وُہ بولا رقم ہے چھپائی ہُوئی
ہے کُرتے کے اندر سِلائی ہُوئی
لٹیروں نے سُن کر کہا خُوب ہے
یہ بچّہ ہے یا کوئی مجذوب ہے
وہ بولے رقم کا پتا کیوں دِیا
ہمیں بھید اپنا بتا کیوں دِیا
تو بچّے نے اُن کو دِیا یہ جواب
مَیں کیوں اپنا ایمان کرتا خراب
مِری ماں کی ہے یہ نصیحت مجھے
نہیں جھُوٹ کہنے کی عادت مجھے
خُدا بھی تو جھُوٹوں سے نفرت کرے
جو سچّے ہیں ان سے محبّت کرے
عقیدہ مِرا ڈول سکتا نہیں
کبھی جُھوٹ مَیں بول سکتا نہیں
سُنا یہ تو حیران ڈاکو ہُوئے
وُہ بچّے کے آگے دوزانو ہُوئے
اَدب سے اُسے پیار کرنے لگے
صداقت کا اِقرار کرنے لگے
ڈکیتی سے توبہ لٹیروں نے کی
اُجالوں سے اُلفت اندھیروں نے کی
مدد سچّے لوگوں کی ہو غیب سے
بچاتی ہے سچّائی ہر عیب سے
شاعر کا نام :- مظفر وارثی
کتاب کا نام :- بابِ حرم