دیارِ جاں میں

دیارِ جاں میں

سنہرے موسم اُتر رہے ہیں


میں زد لمحوں

سیاہ سایوں سے اپنا پیچھا


چھڑا چکا ہوں

پناہ میں ان کی


آچکا ہوں

میں روشنی میں


نہار ہا ہوں

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

ریت صحراؤں کی‘ تپتی ہے تو چِلّا تی ہے :

کاش ہم منیٰ کے ان شعلوں کو نگل جاتے

چاک دامن کے سلے دیکھے تھے

مارکس کے فلسفہء جہد شکم سے ہم کو

نوری آستانے میں ہر قدم پہ برکت ہے

تاریخ خانوادہ برکاتیہ

عِشق مولیٰ میں ہو خوں بار کنارِ دامن

سانوں آن بچونی آندی اے سانوں ملک بچونا اوندا اے

مثنویِ عطار- ۲

اے مرے بھائیوسب سنو دھر کے کاں