بصارت منجمد ہے
اور زباں اک بر ف پارے کی طرح سُن ہے
مرے یخ ذائقے میں ریت کی طرح سُن ہے
سماعت اس قدر بے دست وپا ہے
صرف سناٹے کی مبہم اور پیہم چیخ اس کی دسترس میں ہے
زمیں کو سونگھتا ہوں تو خلا کی باس آتی ہے
فقط اِک حس ابھی زندہ ہے
مستقبل کے لمس دلربا کی حِس !
مسلسل اِرتقا کی حِس !
خدا کی حِس !
شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی
کتاب کا نام :- انوارِ جمال