حمدِ ربِّ مصطَفٰے سے اِبتِداء
ہو دُرُود اُمّی نبی پر دائما
اس جہاں میں ہر طرف ہیں مشکلیں
ہر جگہ ہیں آفتیں ہی آفتیں
کچھ گِھرے غم میں تو کچھ بیمار ہیں
تو کئی قرضے کے زیرِ بار ہیں
ہیں بہت کم لوگ دنیا میں سُکھی
اکثر افراد اِس جہاں میں ہیں دُکھی
چل دیئے دنیا سے سب شاہ و گدا
کوئی بھی دنیا میں کب باقی رہا!
جیتنے دنیا سکندر تھا چلا
جب گیا دنیا سے خالی ہاتھ تھا
لہلہاتے کھیت ہوں گے سب فنا
خوش نُما باغات کو ہے کب بقا؟
تُو خوشی کے پھول لے گا کب تلک؟
تُو یہاں زندہ رہے گا کب تلک؟
دولتِ دنیا کے پیچھے تُو نہ جا
آخِرت میں مال کا ہے کام کیا؟
مالِ دنیا دو۲ جہاں میں ہے وبال
کام آئے گا نہ پیشِ ذوالجلال
رزق میں برکت کی تو ہے جُستُجو
آہ! نیکی کی کرے کون آرزو!
مت لگا تُو دل یہاں پچھتائے گا
کس طرح جنّت میں بھا ئی جائے گا؟
لندن و پیرِس کے سپنے چھوڑ دے
بس مدینے ہی سے رِشتہ جوڑ لے
دل سے دنیا کی مَحَبَّت دور کر
دل نبی کے عشق سے معمور کر
اشک مت دنیا کے غم میں تُو بہا
ہاں نبی کے غم میں خوب آنسو بہا
ہو عطا یارب! ہمیں سوزِ بلال
مال کے جنجال سے ہم کو نکال
یاالٰہی! کر کرم عطارؔ پر
حُبِّ دُنیا اس کے دل سے دور کر
شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری
کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش