عاشق کو بھا سکے گی نہ رنگِ چمن کی بات

عاشق کو بھا سکے گی نہ رنگِ چمن کی بات

دل کا سُکون ہے فقط اُن کے وطن کی بات


موزوں یہاں پہ کیسے ہو دُرِّ عدن کی بات

اِس سے کہیں بُلند ہے اُن کے دہن کی بات


یاقُوت و لعل و نیلم و مرجان کیا کروں

دے گی مجھے تو لُطف نبی کے دہن کی بات


گِردِ ہلال ہالہ سِتارے کِیے رہے

کیا خوب میرے شاہ کی ہے انجمن کی بات


طیبہ کی گَرد کوئی چھڑک دے جو بعدِ مرگ

بڑھ جائے خاکِ جسم کی، میرے کفن کی بات


عُشّاق اُن کے ذکر سے ہیں شاد دائمی

لب پر عدو کے ہوگی ہمیشہ جلن کی بات


اُن کے کرم سے گور میں محشر میں خیر ہے

حق ٹالتا ہے کب مرے شاہِ زمن کی بات


پیاسے جو خون کے تھے وہ دامن میں آگئے

دل کش ہے کِس قدر میرے شِیریں سُخن کی بات


دل میں ہمارے آلِ نبی کی وِلا رہے

اور لب پہ ہمیشہ ہی رہے پنجتن کی بات


مرزا جو اُن کے لُطف و کرم کی نظر پڑے

ہم کو لگے گی پھول سی رنج و مِحن کی بات

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

پُوچھتے مُجھ سے تُم ہو کیا صاحب

شاہِ ہر دوسرا آپ ہیں آپ ہیں

نعتِ محبوبِ خدا ہو لازمی

شہرِ طیبہ کی ہوا درکار ہے

تُمھارے نور سے روشن زمانہ یا رسول اللہ

حضور آپ کے آنے سے روشنی پھیلی

نعتِ سرکار میں سُناتا ہُوں

رنجِشیں دل سے یوں مِٹاتا ہُوں

راحتِ قلب و جگر طیبہ نگر

سرکار کی آمد ہے رحمت کی گھٹا چھائی