حضور آپ کے آنے سے روشنی پھیلی

حضور آپ کے آنے سے روشنی پھیلی

مِٹی جہاں میں تھی جِتنی بھی تِیرگی پھیلی


چمن میں فصلِ بہاری نے رنگ دِکھلایا

شجر بھی پُھولے گُلوں میں بھی تازگی پھیلی


دبایا جاتا تھا زندہ ہی بیٹیوں کو جہاں

عرب میں آپ سے پہلے یہ رسم تھی پھیلی


چمن میں محوِ سماعت ہُوئے سب اہلِ چمن

کلامِ سرورِ دِیں کی وہ چاشنی پھیلی


دِیا عدو کو بھی یہ فیض انت فِیھم نے

عذاب ان سے ٹلے امن و آشتی پھیلی


بُتوں نے کعبۂ اقدس میں ڈیرے ڈالے تھے

وہ ہادی آئے تو پھر رب کی بندگی پھیلی


مفسّرین و محدّث مجدّد و عارف

حضور ہی سے تو یہ عِلم و آگہی پھیلی


خدا نے ذکرِ نبی کو بُلندیاں بخشیں

کہ عرش و فرش پہ خُوئے ثنا گری پھیلی


طُفیلِ صاحبِ لولاک بِالیقیں مرزا

اِس آبِ و گِل کے جہاں میں ہے زندگی پھیلی

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

شاہِ ہر دوسرا آپ ہیں آپ ہیں

نعتِ محبوبِ خدا ہو لازمی

شہرِ طیبہ کی ہوا درکار ہے

تُمھارے نور سے روشن زمانہ یا رسول اللہ

عاشق کو بھا سکے گی نہ رنگِ چمن کی بات

نعتِ سرکار میں سُناتا ہُوں

رنجِشیں دل سے یوں مِٹاتا ہُوں

راحتِ قلب و جگر طیبہ نگر

سرکار کی آمد ہے رحمت کی گھٹا چھائی

سرورِ انبیاء آگئے