نعتِ سرکار میں سُناتا ہُوں

نعتِ سرکار میں سُناتا ہُوں

اپنی تقدیر جگمگاتا ہُوں


گورِ تِیرہ میں روشنی کے لئے

نعت کے دِیپ میں جلاتا ہُوں


بانٹتے ہیں وہ نعمتیں رب کی

صدقۂ مصطفیٰ میں کھاتا ہُوں


حُکم ہے نعمتوں کے چرچے کا

جشنِ میلاد یُوں مناتا ہُوں


یاد آتی ہے جب مدینے کی

دل میں کیف و سُرور پاتا ہُوں


کاش اِس قول کا بنوں مصداق

تِیر لگتے ہیں مُسکراتا ہُوں


اے غمو! نہ ڈراؤ تم مجھ کو

اپنے غمخوار کو بُلاتا ہُوں


دل تو مرزا کبھی کا جا پہنچا

اب مدینے کو میں بھی جاتا ہُوں

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

نعتِ محبوبِ خدا ہو لازمی

شہرِ طیبہ کی ہوا درکار ہے

تُمھارے نور سے روشن زمانہ یا رسول اللہ

عاشق کو بھا سکے گی نہ رنگِ چمن کی بات

حضور آپ کے آنے سے روشنی پھیلی

رنجِشیں دل سے یوں مِٹاتا ہُوں

راحتِ قلب و جگر طیبہ نگر

سرکار کی آمد ہے رحمت کی گھٹا چھائی

سرورِ انبیاء آگئے

دو جہاں میں غیر ممکن ہے مثالِ مصطفیٰ