حدِ خرد تدبیروں تک ہے

حدِ خرد تدبیروں تک ہے

عشق مگر تقدیروں تک ہے


میرے نبیؐ کی حدِّ وراثت

جنّت کی جاگیروں تک ہے


مجمل مجمل خلق نبیؐ کا

قرآں کی تحریروں تک ہے


سب ہیں مضامیں مدحِ نبیؐ کے

اوج اس کا تفسیروں تک ہے


بِن طاعت کے عشق کا دعویٰ

تحریروں تقریروں تک ہے


خواہشِ حسنِ لقائے پیمبرؐ

خوابوں تک ، تعبیروں تک ہے


ان کے صدقے میری رسائی

جنّت کی تنویروں تک ہے


آگے ان کی منشا طاہرؔ

اپنا کام تو نیروں تک ہے

کتاب کا نام :- ریاضِ نعت

دیگر کلام

نعت ان کی خدا کی رحمت ہے

مختصر محدود و ناقص آدمی کی سوچ ہے

ہر شعر مرا مدحتِ طاہر کی طرح ہے

لطفِ شہؐ سے دل مرا آباد ہے

چشمِ رحمت یا نبیؐ درکار ہے

حد غزل کی جسموں تک ہے

روضۂ سرکارؐ رشکِ مطلعِ فاران ہے

قرآن ہے ، دیوان ہے ، قاری ہے ، مدحت خوان ہے

حمد کی یوں توقیر بڑھائی جاتی ہے

نعت کے پہلو سے اک نعت نکل آئی ہے