جب دور سے طیبہ کے آثار نظر آئے

جب دور سے طیبہ کے آثار نظر آئے

سرکار دو عالم کے انوار نظر آئے


یہ نقش قدم کس کے تقدیر بہاراں ہیں

ہر خاک کے ذرے میں گلزار نظر آئے


تاریخ و تمدن کی میزان وہی ٹھرے

اصحاب محمد ہی معیار نظر آئے


جو نقش خیالی تھا اب خون میں رقصاں ہے

مکے میں مدینے میں آثار نظر آئے


کشفی کی نگاہوں میں اب نقش نہیں کوئی

محراب تہجد میں سرکار نظر آئے

شاعر کا نام :- ابو الخیر کشفی

کتاب کا نام :- نسبت

دیگر کلام

فتح سرکار پہ شیطاں کی فغاں کو دیکھو

میں ریاض نبی میں بیٹھا ہوں

جانے کب قریہ ملت پہ برسنے آئے

دیکھو تو ذرا نسبت سلطان مدینہ

پھر مجھے رحمت غفار کی یاد آتی ہے

کیا ہم کو شکایت ہو زمانے کے ستم سے

غم جہاں سے یہ کہہ دے مری طرف سے کوئی

فصل خزاں میں احمد مختار سے بہار

ہم کو کچھ بھی نہیں درکار رسولِ عربی

چاند کا کرب بے عدد بے شمار