کیا ہم کو شکایت ہو زمانے کے ستم سے

کیا ہم کو شکایت ہو زمانے کے ستم سے

ہم زندہ و پائندہ ہیں طلہ کے کرم سے


سرکار دو عالم ﷺ کی بصیرت کا ہے صدقہ

ہر سلسلہ فکر و نظر زندہ ہے ہم سے


تاریخ محمد ﷺ کا نشان کف پا ہے

انسان کو معراج ملی اُن کے قدم سے


وہ ظاہر و باطن بھی وہی اول و آخر

انسان کو کیا کچھ نہ ملا اُن کے کرم سے


مقصود حرم بعثت سرکار دو عالم

آتی ہے صدا آج بھی بنیادِ حرم سے


اُس روضہ اطہر کی فضا غم کا ازالہ

کیا واسطہ مومن کو زمانے کے ستم سے


الفاظ کے محبس میں خموشی رہی کشفی

کی ان کی ثنا ہم نے مگر دیدہ نم سے

شاعر کا نام :- ابو الخیر کشفی

کتاب کا نام :- نسبت

دیگر کلام

میں ریاض نبی میں بیٹھا ہوں

جانے کب قریہ ملت پہ برسنے آئے

دیکھو تو ذرا نسبت سلطان مدینہ

پھر مجھے رحمت غفار کی یاد آتی ہے

جب دور سے طیبہ کے آثار نظر آئے

غم جہاں سے یہ کہہ دے مری طرف سے کوئی

فصل خزاں میں احمد مختار سے بہار

ہم کو کچھ بھی نہیں درکار رسولِ عربی

چاند کا کرب بے عدد بے شمار

تو سرگروه انبیا رحمت کی تجھ پر انتہا