پھر مجھے رحمت غفار کی یاد آتی ہے

پھر مجھے رحمت غفار کی یاد آتی ہے

پھر دیار شہ ابرار کی یاد آتی ہے


روضہ پاک کا ہر نقش، بصیرت کا نشاں

پھر مجھے ساعت بیدار کی یاد آتی ہے


وادی خواب میں دیدار کا لمحہ چمکا

پھر اُسی لذتِ دیدار کی یاد آتی ہے


میرے مولا! مرے حالات کی گرہیں کُھل جائیں

جبر میں احمد مختار کی یاد آتی ہے


اپنے صاحب کی رفاقت کا نشان ہیں صدیق

ہر نفس صاحب ایثار کی یاد آتی ہے


حق و باطل کو جدا کردیا جس نے کشفی

شاہ لولاک کی تلوار کی یاد آتی ہے


جس نے قرآن کے اوراق کو سرخی بخشی

آج اُس دیدۂ گل باڑ کی یاد آتی ہے


اپنے دشمن کے جو سینے سے اتر آیا تھا

اُس جری حیدر کرار کی یاد آتی ہے


نام ہے جس کا ابوالخیر وطن ہے طیبہ

آپ کے خادمِ دربار کی یاد آتی ہے

شاعر کا نام :- ابو الخیر کشفی

کتاب کا نام :- نسبت

دیگر کلام

مرا رفیق میرے ساتھ شہر طیبہ میں

فتح سرکار پہ شیطاں کی فغاں کو دیکھو

میں ریاض نبی میں بیٹھا ہوں

جانے کب قریہ ملت پہ برسنے آئے

دیکھو تو ذرا نسبت سلطان مدینہ

جب دور سے طیبہ کے آثار نظر آئے

کیا ہم کو شکایت ہو زمانے کے ستم سے

غم جہاں سے یہ کہہ دے مری طرف سے کوئی

فصل خزاں میں احمد مختار سے بہار

ہم کو کچھ بھی نہیں درکار رسولِ عربی