جان و ایماں سے بڑھ کے پیارا ہے

جان و ایماں سے بڑھ کے پیارا ہے

ان کا غم شوق کا سنوارا ہے


مہر و مہ حشر تک کریں گے طواف

چشمِ سرکار کا اشارہ ہے


ہاتھ پھیلانے کی نہیں حاجت

کیسے داتا کا یہ دوارا ہے


ہر کسی کے شریکِ غم ہیں حضور

کون دنیا میں بے سہارا ہے


کیا کہوں سبز سبز گنبد کو

نورِ وحدت کا ایک دھارا ہے


اِن کو دیکھو اور اُس کو پہچانو

یہ نظارا بھی کیا نظارا ہے


بحر عشق حضورِ صلِّ علیٰ

بیچ منجدھار بھی کنارہ ہے


عرش سے آئی ہے صبیحؔ آواز

جب کبھی آپ کو پکارا ہے

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دلوں کا شوق، روحوں کا تقاضا گنبد خضرا

بشر کی تاب کی ہے لکھ سکے

حاضر ہیں ترے دربار میں ہم

حضور آپ آئے تو دل جگمگائے

آئے ہیں جب وہ منْبر و محراب سامنے

مری حیات کا گر تجھ سے انتساب نہیں

کر ذکر مدینے والے دا

اَج سِک مِتراں

اللہ اللہ ترا دربار رسولِ عَرَبی

کہاں مَیں کہاں آرزوئے مُحمدؐ