جان و ایماں سے بڑھ کے پیارا ہے
ان کا غم شوق کا سنوارا ہے
مہر و مہ حشر تک کریں گے طواف
چشمِ سرکار کا اشارہ ہے
ہاتھ پھیلانے کی نہیں حاجت
کیسے داتا کا یہ دوارا ہے
ہر کسی کے شریکِ غم ہیں حضور
کون دنیا میں بے سہارا ہے
کیا کہوں سبز سبز گنبد کو
نورِ وحدت کا ایک دھارا ہے
اِن کو دیکھو اور اُس کو پہچانو
یہ نظارا بھی کیا نظارا ہے
بحر عشق حضورِ صلِّ علیٰ
بیچ منجدھار بھی کنارہ ہے
عرش سے آئی ہے صبیحؔ آواز
جب کبھی آپ کو پکارا ہے
شاعر کا نام :- سید صبیح الدین صبیح رحمانی
کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی