پاؤں تھک جائیں گے جب رہِ عشق میں سر تو کیا ہے بہ قلب و نظر جائیں گے
جان جاتی رہے یا رہے کچھ بھی ہو ہم درِ مصطفیٰ تک مگر جائیں گے
ہر نفس خوگر فیضِ ختم الرسل ہر نظر مہر و مہ بلکہ ایمانِ کُل
زندگی بھر نہ شام ان کے گھر آئے گی جو سوئے طیبہ وقتِ سحر جائیں گے
جزبہء جان کیا شوق و ارمان کیا زہد و ایمان کیا عزم و عرفان کیا
جب مدینے کی جانب اُٹھیں گے قدم پیشوائی کو شمس و قمر جائیں گے
گیسوئے شاہ، قدرت کی تنظیم ہے جانِ تعظیم ہے روحِ تکریم ہے
تم سنوارو گے تو یہ بکھر جائیں گے اور بکھیرو گے تو یہ سنور جائیں گے
ہم غلام شہنشاہِ لولاک ہیں وقت کے دامن تنگ سے پاک ہیں
ہم زمانے سے تو گذریں گے کیا بھلا خود زمانے ہی ہم سے گذر جائیں گے
کیسی تعلیم دی ہم کو اللہ نے اور کس پیار سے چاہ سے واہ سے
ہر عبادت میں محبوب کا نام لو ورنہ سجدے یہ سب بے اثر جائیں گے
یہ بھی دیکھے گی چشم فلک ایک دن ان یہود و نصاریٰ کا سر توڑنے
پھر سے بیت المقدس نئی شان سے خادمانِ علی و عمر جائیں گے
ان کا کہنا ہی کیا اے صبؔیحِ حزیں ہم سے انساں کو مدحت کا حق ہی نہیں
رحمتیں دوڑ کر خود اِدھر جائیں گی جس طرف ان کے نورِ نظر جائیں گے
شاعر کا نام :- سید صبیح الدین صبیح رحمانی
کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی