اُن کے دربارِ اقدس میں جب بھی کوئی

اُن کے دربارِ اقدس میں جب بھی کوئی

غم زدہ آ گیا ، تشنہ کام آگیا


غم غلط ہوگئے ‘ معصیت دُھل گئی

مغفرت ، عافیت کا پیَام آگیا


دِل کو لذّت ملی ، چشم پُر نم ہوئی

جسم و جاں آگئے ، عالمِ وجد میں


ضبط صدقے ہوا ، ہوش قرباں ہوئے

جب زباں پر مُحمّدؐ کا نام آگیا


کشتئ نوح ؑ میں ، نارِ نمرود میں

بطن ماہی میں ‘ یونسؑ کی فریاد پر


آپ کا نامِ نامی اے صَلّ علیٰ

ہر جگہ ‘ ہر مصیبت میں کام آگیا


لاڈلے تھے خدا کے کلیمِ خدا

فرق ہے پر کلیم اور محبوب میں


وہ دیدار کرنے گئے طُور پر

ان کے گھر خود خدا کا پیام آگیا


بزم کو نین ساری سنوری گئی

عرش کی چھت‘ زمیں کی صفیں بچھ گئیں


انبیاء آگئے مرسلیں آگئے

مقتدی آچکے تو امام آگیا


ذکرِ ساقئ کوثر سے اے ہم نشیں

دل کو تسکین و فرحت کچھ ایسی ملی


جیسے تسنیم خود سامنے آگئی

ہاتھ میں جیسے ‘ کوثر کا جام آگیا


یہ سکندؔر بھی اے شاہِ جنّ و بشر

لے کے نعتوں کا نذرانہ مختصر


آپ کی محفلِ پاک میں یا نبیؐ

آج پھر بہرِعرضِ سلام آگیا

شاعر کا نام :- سکندر لکھنوی

مجھے رنگ دے

میسر جن کو دید گنبدِ خضریٰ نہیں ہوتی

کہاں مَیں کہاں آرزوئے مُحمدؐ

نہیں ہے منگتا کوئی بھی ایسا کہ جس

آفاق رہینِ نظرِ احمدؐ مختار

ہے دل کی حسرت ہر ایک لمحے

خدا کا فضل برسے گا کبھی مایوس مت ہونا

مجھ کو تو اَپنی جاں سے بھی

آیا ہے بُلاوا پِھر اِک بار مدینے کا

کوئی بتائے کوئی کہیں ہَے حسین سا