مبارکباد اے برکاتیو مژدہ ہے جنت کا
کہ دامن تم نے تھاما مصطفیٰ جانانِ رحمت کا
کہاں تک شکر ہو ہم سے ادا رب کی عنایت کا
بنایا امتی ہم کو شہنشاہِ رسالت کا
کوئی اندازہ کیا کر پائے احمد کی وجاہت کا
کہ قرآں خود بیاں کرتا ہے ان کی شانِ رفعت کا
پلک جھپکی مکان و لامکاں کی سیر کر آئے
کوئی کیا رمز جانے مصطفیٰ کی شانِ رفعت کا
ابو بکر و عمر عثمان و حیدر عبقری ٹھہرے
دیا رب نے انھیں درجہ قیادت کا سیادت کا
خدا نے اپنے ستّر ناموں سے جس کو نوازا ہے
وہی دولھا بنا ہے حشر میں بزمِ شفاعت کا
طلب صادق ہو طالب کی تو پھر منزل بھی ملتی ہے
اویسِ قرن سے سیکھے کوئی انداز الفت کا
اٹھو اب اشک پونچھو مسکراؤ منہ نہ لٹکاؤ
گنہگارو چلو مولیٰ نے در کھولا ہے جنت کا
بھروسہ رب پہ ہو تو ٹہنیاں بنتی ہیں شمشیریں
ہے جاری سلسلہ اب بھی اسی بدری روایت کا
مسلمانو سنبھل جاؤ یہ کیا حالت بنائی ہے
لقب قرآں نے تم کو دے رکھا ہے خیر امت کا
رسوم لغو چھوڑو، سنتوں پر ہو عمل پیرا
بناؤ مستحق خود کو سرِ محشر شفاعت کا
درِ نوری پہ مجمع ہے مریدوں کا فقیروں کا
ہر اک دل میں ہے جذبہ اپنے مرشد کی زیارت کا
شریعت ہیں اگر گیسو، طریقت مانگ ہے ان کی
یہی سچا نظریہ ہے شریعت کا طریقت کا
غلامی میں ہی ہم خوش ہیں ہے آقا کی رضا افضل
ہم اس کے ہیں جو ہے مالک جہنم اور جنت کا
نسب سے نا سہی، سید ہیں وہ دونوں جہانوں کے
کسے انکار ہو سکتا ہے حیدر کی سیادت کا
یہ دینِ سیدِ عالم کی خدمت کی سعادت ہے
کہ دنیا بھر میں ہے مشہور مسلک اعلیٰ حضرت کا
امام احمد رضا سے جلتے ہیں جو نام کے سید
انھیں بھاری پڑے گا حشر میں دعویٰ سیادت کا
بہت سے مولوی نظمی سے غصہ ہو کے بیٹھے ہیں
کہ اس نے راز کیوں کھولا کمیشن کی سیاست کا
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا