بے عمل ہوں مرے پاس کچھ بھی نہیں

بے عمل ہوں مرے پاس کچھ بھی نہیں میری جھولی میں اشکوں کی سوغات ہے

غفلتوں میں کٹی ہے مری زندگی آبرو لاج والے ترے ہاتھ ہے


عشق کی بیکلی میرا ایمان ہے دردِ عشقِ نبیؐ کا یہ احسان ہے

ڈھل رہے ہیں ستارے مری آنکھ سے میری ہر رات تاروں بھری رات ہے


سامنے اب تو صورت ہے سرکارؐ کی گِر گئی فاصلوں کی جو دیوار تھی

میرا ربطِ تصّور سلامت رہے روز خلوت میں ان سے ملاقات ہے


نسبتِ مصطفٰؐے کا بیاں کیا کروں مِل رہا ہے مجھے زندگی کا سکوں

راحتوں کی ضمانت ہے سوزِ دروں ہر تمنا پہ رحمت کی برسات ہے


ہو رہا ہے نمایاں کرم آپکا کیا ہوں میں صرف تصویرِ توفیق ہوں

آپکے ذکر نے مجھ کو چمکا دیا ورنہ میں کیا ہوں کیا میری اوقات ہے


ذکران کا ہے لاریب ذکرِ خدا مصطفٰؐے کی عطا ہے عطائے خدا

انکی تعریف میں جو کہو حمد ہے نعت میں ایک لطفِ منا جات ہے


اپنے دامن میں ہم کو چھپائیں گے وہ حشر کی ہر سزا سے بچائیں گے وہ

ہم بُروں کو گلے سے لگائیں گے وہ مصطفٰؐے کی شفاعت کی کیا بات ہے


دو جہاں کے وہ مالک ہیں مختار ہیں سب کے مونس ہیں وہ سب کے غمخوار ہیں

اُن کی صدقے سے لبریز ہیں جھولیاں دو جہاں کا بھرم انکی خیرات ہے


قلبِ خالدؔ کو طیبہ کی ہے آرزو میرے ذوقِ طلب کی رہے آبرو

رحمتِ مصطفٰؐے کر مجھے سُرخرو میرے پاؤں میں زنجیرِ حالات ہے

شاعر کا نام :- خالد محمود خالد

کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے

حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملت

ماہِ میلاد ہے اک دعا مانگ لیں

جب حُسن تھا اُن کا جلوہ نما انوار کا عَالم کیا ہوگا

خوشی مناؤ خوشی مناؤ اے غم کے مارو

اے عشقِ نبی میرے دل میں بھی سما جانا

ہے اک آشوبِ مسلسل یہ اندھیروں کا نزول

حضور ﷺ میری تو ساری بہار آپﷺ سے ہے

آیۂ کائنات کا معنیِ دیر یاب تُو

پابند ہوں میں شافعِ محشر کی رضا کا

آیا ہے وفا کی خوشبو سےسینوں کو بسادینے والا