جو کسی کسی کا نصیب ہے

جو کسی کسی کا نصیب ہے وہ مرے حضورؐ مجھے بھی دیں

مری ظلمتیں ہیں نگاہ میں تو ذرا سا نُور مجھے بھی دیں


کبھی دِل میں ذِکر کے دَر کھُلیں کبھی رُح محوِ جمال ہو

کبھی وجد ہو کبھی حال ہو کبھی یہ شعُور مجھے بھی دیں


بجز ایک جلوۂ حق نما مُجھے اور کچھ نہ دکھائی دے

جسے ما سوا سے غرض نہ ہو وہ دلِ غیور مجھے بھی دیں


مرے بختِ تیرہ سرشت پر دمِ صبح بابِ اثر کھُلے

ہمہ شب رہے جو مُحیطِ جاں وہ فضائے نُور مجھے بھی دیں


مرا سینہ جہل سے تنگ ہے نہ کشادگی ہے نہ روشنی

مرے ذوق و ظرف کو دیکھ کر دلِ ناصبُور مجھے بھی دیں


جو فراق ہو تو اویس سا جو وصال ہو تو بلال سا

یہ کرم ہو میرے بھی حال پر غمِ نزد و دُور مجھے بھی دیں


یہ مقام مُجھ کو بھی ہو عطا مجھے اپنے قدموں میں دیں جگہ

کسی کج کلاہِ غلام کا سرِ پُر غرُور مجھے بھی دیں

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

پھر ہوا سازِ مدح زمزمہ سنج

جس سے دونوں جہاں جگمگانے لگے

میری آنکھوں میں عقیدت کی خوشی زندہ رہے

مِل جاون یار دیاں گلیاں اساں ساری خدائی کیہہ کرنی

سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی

بخت والوں کو مدینے میں ٹھکانہ مل گیا

مرے خواب میں آ بھی جا غوثِ اعظم

ترے در توں جدا ہوواں کدی نہ یا رسول اللہ

بادل کو شبنم کیا سمجھے

خوش خصال و خوش خیال و خوش خبر، خیرالبشرؐ