یا رب ثنا میں کعبؓ کی دلکش ادا مل

یا رب ثنا میں کعبؓ کی دلکش ادا مل

فتنوں کی دوپہر میں سکوں کی ردا ملے


حسّانؓ کا شکوہِ بیاں مجھ کو عطا ہو

تائیدِ جبرئیلؑ بوقتِ ثنا ملے


بوصیری عظیم کا ہوں میں بھی مقتدی

بیمارئ اَلم سے مجھے بھی شفا ملے


جامیؒ کا جذب، لہجہ قدسیؒ نصیب ہو

سعدیؒ کا صدقہ شعر کو اذنِ بقا ملے


دل بستگی ملے مجھے لطف و امیر کی

کافی کے علم و عشق سے رشتہ مرا ملے


آئے قضا شہیدیءؒ خوش بخت کی طرح

دُوری میں بھی حضورئ احمدرضاؒ ملے


مجھ کو عطا ہو زورِبیانِ ظفرؒعلی

محسنؒ کی ندرتوں سے مرا سلسلہ ملے


حالیؒ کے درد سے ہو مرا فکر استوار

ادراکِ خاص حضرتِ اقبالؒ کا ملے


جو مدحتِ نبیﷺمیں رہا بامراد وشاد

اُس کا روانِ شوق سے تائب بھی جا ملے

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

کہاں مَیں کہاں آرزوئے مُحمدؐ

سر روضۂ سرکارؐ کی دہلیز پہ ہے

کوئی گل باقی رہے گا ،نہ چمن رہ جائے گا

اہلِ جہاں کو درد کا چارا نہیں نصیب

حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملت

چار سُو نُور کی برسات ہوئی آج کی رات

ماہِ تاباں سے بڑھ کر ہے روشن جبیں

اے خدا مجھ کو مدینے کا گدا گر کردے

دہر کے ہادی شاہِ ہُدا مالکِ کوثر صلِ علی ٰ

تمہاری یاد جو دل کا قرار ہو جائے