حاضر ہُوں مَیں حاضر ہُوں

حاضر ہُوں مَیں حاضر ہُوں

اللہ مَیں حاضر ہُوں


اس خطّہء اشرف میں

اس وادیء اقدس میں


اس شہرِ مکرّم میں

اس بیتِ مطّہر میں


حاضر ہُوں، مَیں حاضر ہُوں

اللہ مَیں حاضر ہُوں


کوئی تری قُدرت میں

کوئی تری عظمت میں


شِرکت نہیں کر سکتا

توحید میں شِرکت کی


جُرأت نہیں کر سکتا

اے ذاتِ احد تیری


درگاہِ جلالت میں

حاضر ہُوں مَیں حاضر ہُوں


اللہ مَیں حاضر ہُوں

تیرے لئے ہر مدحت


تیرے لِئے ہر نعمت

اے بادشہِ مطلق


یہ ارض و سما تیرے

یہ کون و مکاں تیرے


سب زیرِ نگیں تیرے

سب تیرے تہِ فرماں


ہر شے پہ ترا قبضہ

ہر مُلک کا تُو سُلطاں


حاضر ہُوں، مَیں حاضر ہُوں

اللہ مَیں حاضر ہُوں


تُوٹا ہُوا دل لے کر

بکھری ہُوئی جاں لے کر


کاندھے پہ گُناہوں کا

اِک بارگراں لے کر


دامانِ ندامت میں

سودائے زیاں لے کر


اس بیتِ سعادت میں

اس امن کی جنّت میں


گہوارہء راحت میں

معمورۂ رحمت میں


امّیدِ عنایت میں

حاضر ہوں، مَیں حاضر ہُوں


اللہ مَیں حاضر ہُوں

شاعر کا نام :- عاصی کرنالی

کتاب کا نام :- حرف شیریں

دیگر کلام

مُشتِ گل ہُوں وہ خرامِ ناز دیتا ہے مُجھے

ترا لُطف جس کو چاہے اُسے ضَوفشاں بنا دے

مالکِ ارض و سما فرمانِ راحت بھیج دے

اقلیمِ دو جہاں کے شہنشاہ فضل کر

اے خُدا تُو نے اپنے بندوں کو

حاضر ہُوں مَیں حاضر ہُوں

ربّنا یا ربّنا یا ربّنا یا ربّنا

خامۂ افکار کو طرزِ ادا دیتا ہے کون

جلوۂ عشقِ نبی دل میں بسا دے یا رب

حمد ہے رب کی کہ جس نے یہ جہاں پیدا کیا

نگارِ حمد میں آقاؐ کی مدحت ساتھ رہتی ہے