اقلیمِ دو جہاں کے شہنشاہ فضل کر

اقلیمِ دو جہاں کے شہنشاہ فضل کر

اللہ فَضل کر مِرے اللہ فضل کر


اے وہ کہ تُجھ سے جلوۂ خُورشید، التفات

اے کہ وہ تُجھ سے روشنئ ماہ، فضل کر


اے وہ کہ چشم، چشمِ بصیرت ترے سبب

اے وہ کہ تجھ سے دل، دلِ آگاہ فضل کر


پلکوں پہ جب ہو قافلۂ اشک، روک دے

ہونٹوں پہ جب ہو سِلسلۂ آہ، فضل کر


پڑتے ہوں جب مصائبِ پیہم، نگاہ رکھ

ڈستے ہوں جب حوادثِ نگاہ فضل کر


بہکیں قدم تو جانبِ منزل سے دے صدا

جب آدمی کا نفس ہو گمراہ، فضل کر


فارغ غبارِ غم سے ہو آئینۂ حیات

دل پر نہ ہو الم کا پرِ کاہ، فضل کر


جب دل میں حرصِ زر ہو، قناعت کا عزم دے

جب نفس میں رچے طلبِ جاہ، فضل کر


عاصیؔ ہوں، معصیت کے سمندر میں غرق ہُوں

پھر بھی ہُوں ایک بندۂ درگاہ ، فضل کر

شاعر کا نام :- عاصی کرنالی

کتاب کا نام :- حرف شیریں

دیگر کلام

یا رب ہر مخلوق پہ ہے انعام ترا

خدا کی حمد کا ذکرِ نبیؐ کا

مُشتِ گل ہُوں وہ خرامِ ناز دیتا ہے مُجھے

ترا لُطف جس کو چاہے اُسے ضَوفشاں بنا دے

مالکِ ارض و سما فرمانِ راحت بھیج دے

اقلیمِ دو جہاں کے شہنشاہ فضل کر

اے خُدا تُو نے اپنے بندوں کو

حاضر ہُوں مَیں حاضر ہُوں

ربّنا یا ربّنا یا ربّنا یا ربّنا

خامۂ افکار کو طرزِ ادا دیتا ہے کون

جلوۂ عشقِ نبی دل میں بسا دے یا رب