اقلیمِ دو جہاں کے شہنشاہ فضل کر
اللہ فَضل کر مِرے اللہ فضل کر
اے وہ کہ تُجھ سے جلوۂ خُورشید، التفات
اے کہ وہ تُجھ سے روشنئ ماہ، فضل کر
اے وہ کہ چشم، چشمِ بصیرت ترے سبب
اے وہ کہ تجھ سے دل، دلِ آگاہ فضل کر
پلکوں پہ جب ہو قافلۂ اشک، روک دے
ہونٹوں پہ جب ہو سِلسلۂ آہ، فضل کر
پڑتے ہوں جب مصائبِ پیہم، نگاہ رکھ
ڈستے ہوں جب حوادثِ نگاہ فضل کر
بہکیں قدم تو جانبِ منزل سے دے صدا
جب آدمی کا نفس ہو گمراہ، فضل کر
فارغ غبارِ غم سے ہو آئینۂ حیات
دل پر نہ ہو الم کا پرِ کاہ، فضل کر
جب دل میں حرصِ زر ہو، قناعت کا عزم دے
جب نفس میں رچے طلبِ جاہ، فضل کر
عاصیؔ ہوں، معصیت کے سمندر میں غرق ہُوں
پھر بھی ہُوں ایک بندۂ درگاہ ، فضل کر
شاعر کا نام :- عاصی کرنالی
کتاب کا نام :- حرف شیریں