خامۂ افکار کو طرزِ ادا دیتا ہے کون
دل میں احساسات کی شمعیں جلا دیتا ہے کون
سینۂ امواج پہ کشتی چلا دیتا ہے کون
خلق کو دریا کے اندر بھی غذا دیتا ہے کون
موت کی آغوش میں سب کو سلا دیتا ہے کون
لفظِ ”کُن“ فرما کے مردوں کو جِلا دیتا ہے کون
غنچہ و گل کو تبّسم کی ادا دیتا ہے کون
لالہ زاروں کو حسین اتنا بنا دیتا ہے کون
سوکھے پیڑوں کو نمو دے کر جلا دیتا ہے کون
سبز پتّوں کو بتا ”رنگِ حنا“ دیتا ہے کون
بلبلوں کو چہچہانے کی نوا دیتا ہے کون
پھول کو خاموش رہنے کی ادا دیتا ہے کون
درد مندوں کو، مریضوں کی دوا دیتا ہے کون
اور بیماروں کو دنیا میں شفا دیتا ہے کون
کون ہے ماں باپ سے زیادہ شفیق و مہرباں
مجرموں کو اپنی رحمت کا پتہ دیتا ہے کون
بے سبب ہی بخش دیتا ہے سبھی جرم و خطا
داغِ عصیاں آبِ رحمت سے مٹا دیتا ہے کون
کس نے بخشی نور کی خیرات ماہ و نجم کو
شب کو ظلمت دن کو سورج کی ضیا دیتا ہے کون
کون ہے اس کے سوا انساں کی شہ رگ سے قریب
دیکھ قرآں ”نحن اقرب“ کی صدا دیتا ہے کون
عقل ہے حیران قدرت کا کرشمہ دیکھ کر
ڈوبا سورج وقت پر ہر دن اُگا دیتا ہے کون
دستِ قدرت میں ہے یہ کس کے نظامِ کائنات
زندہ رہنے کے لیے سب کو غذا دیتا ہے
یاس کے دورِ خزاں میں جب کہ جینا ہو کٹھن
گلشنِ امّید ایسے میں کھلا دیتا ہے کون
کون ہے جو غیب سے کرتا ہے بندوں کی مدد
روتے انسانوں کو اِک پل میں ہنسا دیتا ہے کون
رب کی قدرت سے ہی چلتا ہے نظامِ کائنات
اب نہ یہ کہنا مریضوں کو شفا دیتا ہے کون
علم و حکمت کا خزانہ سب کو دیتا ہے وہی
مانگ احمدؔ اس سے ہی اس کے سوا دیتا ہے کون
شاعر کا نام :- مولانا طفیل احمد مصباحی
کتاب کا نام :- حَرفِ مِدحَت