ایسا لگتا ہے مدینے جلد وہ بلوائیں گے

ایسا لگتا ہے مدینے جلد وہ بلوائیں گے

جائیں گے جا کر انہیں زخمِ جگر دکھلائیں گے


وہ اگر چاہیں گے تو ایسی نظر فرمائیں گے

خوب روئیں گے پچھاڑوں پرپچھاڑیں کھائیں گے


خشک اشکِ عشق سے آنکھیں ہیں دل بھی سخت ہے

آپ ہی چاہیں گے تو آقا ہمیں تڑپائیں گے


موت اب تو گنبدِ خَضرا کے سائے میں ملے

کب تک آقا دربدر کی ٹھو کر یں ہم کھائیں گے


اے خوشا! تقدیرسے گر ہم کو منظوری ملی

رکھ کے سر دَہلیز پر سرکار کی مرجائیں گے


روتے روتے گر پڑیں گے ان کے قدموں میں وہاں

روزِ محشر شافِعِ محشر نظر جب آئیں گے


خلد میں ہوگا ہمارا داخِلہ اس شان سے

یا رسولَ اللہ کا نعرہ لگاتے جائیں گے


حشر میں کیسے سنبھالوں گا میں اپنے آپ کو

آ مِرے عطار!ؔ آ وہ جب وہاں فرمائیں گے


ہائے اب کی بار بھی عطارؔ جو زندہ بچے

پھر مدینے سے کراچی روتے روتے آئیں گے

شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری

کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش

واہ کیا جود و کرم ہے

زندگی میری ہے یارب یہ امانت تیری

اے خدا شکر کہ اُن پر ہوئیں قرباں آنکھیں

اکرامِ نبی، الطافِ خدا، سبحان اللہ ماشاء اللہ

نور حضرتؐ کاجو طیبہ کے نظاروں میں نہ تھا

زمین و زماں تمہارے لئے

تھی جس کے مقّدر میں گدائی ترے در کی

دونوں عالم کا داتا ہمارا نبی

کعبے کی رونق کعبے کا منظر، اللہ اکبر اللہ اکبر

یوں تو سارے نبی محترم ہیں مگر سرورِ انبیاء تیری کیا بات ہے