ہے دل میں عشقِ نبی کا جلوہ ‘ نظر میں خواجہ ؒ سما رہے ہیں

ہے دل میں عشقِ نبی کا جلوہ ‘ نظر میں خواجہ ؒ سما رہے ہیں

ہمارے خواجہ ؒ ہمارے آنگن میں آج تشریف لا رہے ہیں


نگر نگر میں کرو منادی‘ ہے آج خواجہ پِیا کی شادی

نظر مِلا کر وہ داسیوں کو سدا سہاگن بنا رہے ہیں


ہر ایک دل میں سرُور اُن کا ‘ ہر اک نظر ظہور اُن کا

وہ اپنی آنکھوں کے میکدے سے شرابِ الفت پلا رہے ہیں


ہمارے خواجہؒ کے سب سوالی کوئی گیا آج تک نہ خالی

گدا نواز ی کی شان یہ ہے کہ سب کی بگڑی بنا رہے ہیں


یہ زندگی ہے نیا زان کی ‘ ہے دل میں قائم نماز ان کی

حرم سمجھ کر اس آستاں پہ ولی زمانے کے آرہے ہیں


ضرور فیضِ کرم ملے گا ‘ ضرور دل کا چمن کھِلے گا

ہم اپنے خواجہ معین چِشتی ؒ کی آج محفل سجارہے ہیں


فریدؒ، صابرؒ ، نظامؒ آئے کہ شاہ بن کے غلام آئے

قطب ولی آ ج مستیوں کے سبھی خزانے لُٹا رہے ہیں


ہے ان کے سر پر علی ؑ کا سایہ‘ نبیؐ نے ہِند الولی بنایا

جہاں سے خواجہ معینؒ گزرے وہ راستے جگمگا رہے ہیں


یہی تو معراج آرزو ہے ‘ بلند دروازہ رُوبرو ہے

درِ عطا پر پہنچ کے واصِفؔ ہم اپنی پلکیں بچھا رہے ہیں

شاعر کا نام :- واصف علی واصف

کتاب کا نام :- شبِ راز

نکہت و رنگ و نور کا عالم

یہ ناز یہ انداز ہمارے نہیں ہوتے

رحمن ہے رحیم ہے سب سے عظیم ہے

شب کو بھی جہاں لاکھوں خورشید نکلتے ہیں

لب پر نعتِ پاک کا نغمہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے

لب پر مرے حضور کی مدحت سدا رہے

ہم شہر مدینہ کی ہوا چھوڑ چلے ہیں

گو ہوں یکے از نغمہ سرایانِ محمد ﷺ

حدودِ طائر سدرہ، حضور جانتے ہیں

اُدھر دونوں عالم کے والی کا در ہو