اپنی بخشش کیلئے رو کے الگ بات کروں

اپنی بخشش کیلئے رو کے الگ بات کروں

کیوں نہ سرکار سے میں ہو کے الگ بات کروں


گنبدِ سبز کو آنکھوں سے جو کچھ کہنا ہو

بہتے اشکوں سے نظر دھو کے الگ بات کروں


بات تو کر لوں مگر پھر یہ خیال آتا ہے

کوئی صدّیق ہوں میں جو کے الگ بات کروں


سوچتا ہوں کہ خدوخالِ غمِ عقبٰی سے

ارضِ دل میں ترا غم بو کے الگ بات کروں


وہ بھی دن آئے کہ میں آپ سے اے فخرِ جہاں

دنیا والوں سے پرے، سو کے الگ بات کروں


نعت کہتا رہوں، یہ وقت نہ آئے آقا

تیرے قدموں کے نشاں کھو کے الگ بات کروں


وادئ خوابِ تبسم میں مرے مرکزِ دل

اپنی تصویر اتارو کہ الگ بات کروں

دیگر کلام

ہر وقت تصوّر میں مدینے کی گلی ہے

کِتنی گُستاخ ہے نگاہِ خیَال

جمالِ مصطفویؐ کا کوئی جواب نہیں

تصورات میں روشن دیار دیکھتا ہوں

گھر کر چکا ہے گنبدِ خضرا خیال میں

آستان حبیب خدا چاہئے

حقیقت آپ کی حق جانتا ہے

روشن ہے مرے خواب کی دُنیا مرے آگے

ہم نے تقصیر کی عادت کرلی

میلادِ محمد جو منانے میں لگے ہیں