بکھرا ہوا پڑا ہوں ٗ دل سے در نبیؐ تک

بکھرا ہوا پڑا ہوں ٗ دل سے در نبیؐ تک

جانا ہے صرف مجھ کو حیرت سے آگہی تک


اوج و کمال سارا حسن و جمال سارا

آئینہء خدا سے عکسِ محمدیؐ تک


گر اُن سے واسطہ ہے اک پل کا راستہ ہے

باہر کی تیرگی سے اندر کی روشنی تک


دنیا تھی گدلی گدلی آ کر انہوں نے بدلی

وہ صرف درمیاں ہیں بندے سے بندگی تک


تہذیب کے ہیں محسن روشن ہے ان سے باطن

چاپ انکی سایہ اُن کا آدم سے آدمی تک


احسانِ مصطفؐےٰ ہے فیضان مصطفؐےٰ ہے

جلتے ہوئے دیئے سے کھلتی ہوئی کلی تک


دھوئے ہیں پاپ میرے مالک ہیں آپؐ میرے

دنیا کی زندگی سے عقبیٰ کی زندگی تک


اک اور ہی سفر پر نکلے ہیں ہم مظفر

دنیا عبور کر کے پہنچے جو اُس گلی تک

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- صاحبِ تاج

دیگر کلام

برستی رحمت و انوار کی ہر سو گھٹا دیکھی

ہر ویلے لگی رہندی اے اکھیاں نوں تاہنگ مدینے دی

صد شکر کہ میں گہری نظر لے کے چلا ہوں

تِرے کرم کا خدائے مُجیب کیا کہنا

سب توں وڈی شان والا آ گیا

جن کی رحمت برستی ہےسنسار پر

تو اوجِ رسالت ہے، شہِ خیر امم ہے

درِ مُصطفٰے سے جو نسبت نہیں ہے

فقیر و صاحبِ ثروت تونگر دیکھ آئے ہیں

ہم بناوٹ سے نہیں کہتے کہ ہم تیرے ہیں