زمیں آسماں میں مکاں لامکاں میں کوئی آپ سا ہے نہیں ہے نہیں ہے

زمیں آسماں میں مکاں لامکاں میں کوئی آپ سا ہے نہیں ہے نہیں ہے

وہ سدرہ کا راہی حبیب ؐ الہیٰ کوئی دوسرا ہے نہیں ہے نہیں ہے


سبھی انبیاء دے رہے ہیں گواہی وفادار ہیں مصطفیٰ کے الہیٰ

جو بنتا نہیں ہے مرے مصطفیٰ ؐ کا وہ بندہ خدا کا نہیں ہے نہیں ہے


سبھی دائیوں نے حلیمہؓ سے پوچھا، ترے پاس کیا ہے، کہا سعدیہؓ نے

اسے دیکھ کر تم بتاؤ کہ ایسا کسی کو ملا ہے ، نہیں ہے نہیں ہے


رہا عمر بھر غم جسے عاصیوں کا سرِ عرش بھی جو نہ امت کو بھولا

مثال اس کرم کی جواب اس عطا کا کہیں مل سکا ہے نہیں ہے نہیں ہے


کہاں تک کرے کوئی توصیف ان کی خدا جب کہ کرتا ہے تعریف ان کی

ظہوریؔ کسی سے نبیؐ کی ثنا کا ہوا حق ادا ہے نہیں ہے نہیں ہے

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- توصیف

دیگر کلام

سر بسر تھا مرے سرکار کا پیکر اخلاص

عرش سے آتی ہے صدا صلِّ علیٰ محمدٍ

لاکھ بدکار گنہگار سیہ کار ہوں میں

سارے عالم میں انوار کی روشنی

مدینے والے ہمارے دل ہیں ازل سے تشنہ ازل سے ترسے

مرحبا عزت و کمالِ حضور

امام الانبیاء ختم الرّسل نورِ خدا کہیے

فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر

کیسے ہماری قسمتِ خستہ ہو سامنے

عیاں ہے فیضِ کرم کا ظہور آنکھوں سے