محبوبِ رب کہیں شہِ والا کہ کیا کہیں

محبوبِ رب کہیں شہِ والا کہ کیا کہیں

اتنا ہے رتبہ آپ کا بالا کہ کیا کہیں


تاریکیوں میں ڈوب چلا تھا یہ شہرِ دل

نورِ نبی نے ایسا اجالا کہ کیا کہیں


جو ڈگمگا رہے تھے رہِ زیست میں انہیں

یوں رحمتِ نبی نے سنبھالا کہ کیا کہیں


آساں ہوئے مراحلِ دنیا و آخرت

کام ایسا آیا ان کا حوالا کہ کیا کہیں


ایسے ہے جان ان پہ لُٹانے کو پیش پیش

ہر ایک ان کا چاہنے والا کہ کیا کہیں


آصف رہی نہیں کوئی حاجت، غنی ہوں میں

اس طرح مجھ کو آپ نے پالا کہ کیا کہیں

شاعر کا نام :- محمد آصف قادری

کتاب کا نام :- مہرِحرا

جانب منزل محبوب سفر میرا ہے

پھر ہوا سازِ مدح زمزمہ سنج

تھی جس کے مقّدر میں گدائی ترے در کی

لَم یَاتِ نَظِیْرُکَ فِیْ نَظَرٍمثلِ تو نہ شُد پیدا جانا

اے خاور حجاز کے رخشندہ آفتاب

عشق ایسا ملال دیتا ہے

نُور لمحات میں اب عشق سویرا ہوگا

یہ نوازشیں یہ عنایتیں غمِ دوجہاں سے چھڑا دیا

صلوٰۃْ سلامُ عَلَی المُصطَفےٰ

لو ختم ہوا طیبہ کا سفر