بس درودوں کی ہی تکرار ہے میرے آقا

بس درودوں کی ہی تکرار ہے میرے آقا

یوں مزے میں دلِ بیمار ہے میرے آقا


ذرہ ذرہ وہاں ضو بار ہے میرے آقا

در ترا مرکزِ انوار ہے میرے آقا


دل مرا پھر مجھے بے چین کیے رہتا ہے

پھر مدینے کا طلبگار ہے میرے آقا


آپ کا اذن اگر ہو تو چلا آئے حضور

یہ غلام آپ کا تیار ہے میرے آقا


کون پوچھے گا وہاں کس کی بھلا چلتی ہے

حشر میں تو ہی مددگار ہے میرے آقا


چاند اتراتا ہوا پھرتا ہے سارے جگ میں

جو ترے در سے ضیا بار ہے میرے آقا


روشنی بھی تری رفتار سے آگے نہ بڑھی

تیری رفتار وہ رفتار ہے میرے آقا


جس سے کروا لیا کرتے ہیں ثنا آپ اپنی

یہ شفیقؔ ایسا قلم کار ہے میرے آقا

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

محمد مصطفٰی آئے بہاروں پر بہار آئی

خالی کبھی ایوانِ محمدؐ نہیں رہتا

اجمیر بُلایا مجھے اجمیر بُلایا

جس کو نسبت ہوئی آپ کے نام سے

الہامِ نعت ہوتا ہے چاہت کے نور سے

اس نے کہا کہ مجھ کو یہ ”سونا“ پسند ہے

نور ہی نور نہ ہو کیوں شہِ ضو بار کی بات

سیرتِ پاک تفسیرِ قرآن ہے

تیری ہی ذات اے خدا اصلِ وجُودِ دوسرا

یہ اصحاب صُفّہ، خدا کے سپاہی