شہداء کربلا

شبیرِ نا مدار پہ لاکھوں سلام ہوں

امت کی آبرو ہیں شہیدانِ کربلا

کربل دے ایہہ جیالے

چھڈ دیس نگاراں دا

اپنے وعدے کو وفا کرنے وفا والے چلے

صبر و بہادری تو ہے اِک نامِ کربلا

شفق سے پوچھ لیں آؤ بتاؤ ماجرا کیا ہے

خوشبو زمینِ نینوا سے لے گیا گلاب

کر بل کہ آگ کا میں دہانہ کہوں اسے

دل دہل جاتا ہے میں جب بھی کبھی سوچتا ہوں

آج کا دن شہِ دل گیر کا دن ہے لوگو

تڑپ اُٹھتا ہے دل لفظوں میں دُہرائی نہیں جاتی

تذکرہ سُنیے اب اُن کا دلِ بیدار کے ساتھ

کرب و بلا ہے ظلم کی اِک داستان ہے

کربلا، اے سرخرو لوگوں کے سجدوں کی زمیں