قسمت مِری چمکائیے چمکائیے آقا

قسمت مِری چمکائیے چمکائیے آقا

مجھ کو بھی درِ پاک پہ بُلوائیے آقا


سینے میں ہو کعبہ تو بسے دل میں مدینہ

آنکھوں میں مری آپ سما جائیے آقا


بے تاب ہوں بے چَین ہوں دیدار کی خاطر

لِلّٰہ مِرے خواب میں آجائیے آقا


ہر سَمت سے آفات و بَلِیّات نے گھیرا

مجبور کی اِمداد کو اب آئیے آقا


سکرات کا عالَم ہے شَہا! دم ہے لبوں پر

تشریف سِرہانے مِرے اب لائیے آقا


وَحشت ہے اندھیرا ہے مری قَبْر کے اندر

آکر ذرا روشن اِسے فرمائیے آقا


مُجرِم کو لئے جاتے ہیں اب سُوئے جہنَّم

لِلّٰہِ! شَفاعت مِری فرمائیے آقا


عطّارؔ پہ یا شاہِ مدینہ ہو عِنایت

وِیرانۂ دل آ کے بسا جائیے آقا

شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری

کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش

دیگر کلام

ذرّے جھڑ کر تیری پیزاروں کے

محراب کی بغل میں تنا تھا کھجور کا

وہ لوگ جو جاتے ہیں مکّے میں مدینے میں

میری زندگی کا مقصد جاہ و حشم نہیں ہے

اچھا لگتا ہے یا سب سے اچھا لگتا ہے

رہبرِ راہِ وفا تیرے گھرانے والے

اَب تو مَیں کچھ بھی نہیں اشکِ ندامت کے سوا

بابِ مدحت پہ مری ایسے پذیرائی ہو

تو جب آیا تو مٹی روح و بدن کی تفریق

بشر سے غیر ممکن ہے ثنا حضرت محمد کی