چراغ طیبہ کی روشنی میں جو ایک شب بھی گزار آئے

چراغ طیبہ کی روشنی میں جو ایک شب بھی گزار آئے

وہ دل کو روشن بنا کے اٹھے وہ اپنی قسمت سنوار آئے


کچھ ایسی ہی ہے شراب الفت وہیں کھڑے ہیں خبر نہیں ہے

نہ در ہوا بند میکدے کا نہ ہوش میں بادہ خوار آئے

شاعر کا نام :- علامہ ارشد القادری

کتاب کا نام :- اظہار عقیدت

دیگر کلام

دیارِ غرب میں آنکھیں کسی کی اشک فشاں

کسی نقاب کے دامن میں جگنوؤں کی چمک

ستون توبہ پہ ہونٹوں کو رکھ دیا میں نے

مدینہ میں دل کا نشاں چھوڑ آئے

روز آئے مدینے سے بادِ صبا ہجر میں دل ہمارا بہلتا رہے

علامت عشق کی آخر کو ظاہر ہو کے رہتی ہے

تیرے قدموں میں شجاعت نے قسم کھائی ہے

آبگینوں میں شہیدوں کا لہو بھرتے ہیں

خون ہے یہ شہہ لولاک کے شہزادوں کا

ہے افضل تے اعلیٰ محمد دا روضہ