عام ہیں آج بھی ان کے جلوے ، ہر کوئی دیکھ سکتا نہیں ہیں

عام ہیں آج بھی ان کے جلوے ، ہر کوئی دیکھ سکتا نہیں ہیں

سب کی آنکھوں پہ پردہ پڑا ہے ، ان کے چہرے پہ پردہ نہیں ہے


محترم یوں تو سارے نبی ہیں ، پر کسی کا یہ رتبہ نہیں ہے

کہ تاجدار حرم کے علاوہ ، عرش پہ کوئی پہنچا نہیں ہے


عرش پر جب رُکے میرے آقا ، تو یکایک ہوا حکم مولا

کہ بے حجاب آیے یامحمد ، آپ سے کوئی پردہ نہیں ہے


آو نقطہ تمہیں میں بتاو ، کہ کیوں بے نقطہ ہے نام محمد

نام پر بوجھ نقطے کا آئے ، حق کو یہ بھی گوارہ نہیں ہے


عشق کی آگ میں جل رہے ہیں ، کیوں ڈراتا ہے دوزخ سے ہم کو

ہم غلامِ محمد ہیں واعظ ، ہم کو دوزخ کا کھٹکا نہیں ہے


یہ عقیدت نہیں تو کیا ہے، اور یہ محبت نہیں ہے تو کیا ہے

کہ اُن پہ ہم جان دیتے ہیں انور ، جن کو آنکھوں سے دیکھا نہیں ہے

شاعر کا نام :- نامعلوم

حدودِ طائر سدرہ، حضور جانتے ہیں

چاہت مرے سینے میں سمائی ترےؐ در کی

در عطا کے کھلتے ہیں

رب کی ہرشان نرالی ہے

عشقِ نبی ﷺ جو دل میں بسایا نہ جائے گا

ہم خاک ہیں اور خاک ہی مَاوا ہے ہمارا

زندگی دا مزا آوے سرکار دے بوہے تے

آمدِ مصطَفیٰ مرحبا مرحبا

کوئی گل باقی رہے گا ،نہ چمن رہ جائے گا

حبیبا اچی شان والیا