جو روشنی مدینے کے دیوار و دَر میں ہے

جو روشنی مدینے کے دیوار و دَر میں ہے

دامانِ شمس میں ہے نہ جیبِ قمر میں ہے


سارے دِلوں کا نُور ہے اُلفت حضوؐر کی

اُتری ہُوئی یہ چاندنی ایک ایک گھر میں ہے


عارض میں اپنے دیکھ رہی ہے ترا جمال

آئینہ آفتاب کا دستِ سحر میں ہے


اشکوں کے آئنے میں مدینہ ہے عکس ریز

آباد ایک شہر مری چشمِ تر میں ہے


موجِ ہَوا جلاتی ہے آکر مِرے چراغ

آہوں سے شعلگی مِرے قلب و جگر میں ہے


کتنی مسافت اور ہے اے منزلِ مُراد

روزِ ازل سے تیرا مُسافر سفر میں ہے


ملتان سے اُڑوں تو مدینے میں جا گِروں

اتنی سی جان اب بھی مرے بال و پر میں ہے


اُن کے حضُور دید کے آداب اور ہیں

اپنی نظر بھی آج ہماری نظر میں ہے


اے مسجد النّبی مجھے رخصت نہ کر ابھی

سجدوں کا اِک ہجوم ابھی میرے سر میں ہے


اَب مَیں درِ رسُولؐ سے واپس گیا تو کیا

میری جبیں گڑی ہُوئی اس سنگِ در میں ہے


جیسے مَیں پی رہا ہُوں مسلسل مئے طہور

اتنا سرُور مدحتِ خیر البشرؐ میں ہے


عاصی مِلا ہے دل کو گداز اُن کے عشق سے

یہ سنگ اب قبیلۂ لعل و گہر میں ہے

شاعر کا نام :- عاصی کرنالی

کتاب کا نام :- حرف شیریں

دیگر کلام

دمبدم تیری ثنا ہے یہ بھی

کیا حسنِ سخا جانِ سخا دستِ کرم ہے

غماں دے ماریاں دا ہے سہارا

جی رہا ہوں میں اُس دیار سے دُور

حجابِ نبوت ۔۔۔۔۔۲

خُلقِ رسولؐ سے اگر اُمّت کو آگہی رہے

سبز گنبد کی قسم شہر محبت کی قسم

لفظ ہیں نعت کے پہچان میں آ جاتے ہیں

چلتے چلتے مصطفیٰ کے آستاں تک آ گئے

کر اِہتمام بھی ایمَاں کی روشنی کے لیے