تیرے آگے مری جھکتی ہوئی پیشانی سے

تیرے آگے مری جھکتی ہوئی پیشانی سے

میری ہر صبح کا آغاز ہوا کرتا ہے


رحمتیں دیتی ہیں آواز گنہ گاروں کو

یہ کرشمہ بھی ترا عفو کیا کرتا ہے


رزق پہنچاتا ہے پتھر میں چھپے کیڑے کو

تو ہی سوکھی ہوئی شاخوں کو ہرا کرتا ہے


زندگی پر کبھی اتراؤں نہ مرنے سے ڈروں

تو ہی پیدا بھی کرے تو ہی فنا کرتا ہے


تیرے الطاف کسی کے لیے مخصوص نہیں

تو ہر اک چاہنے والے کی سنا کرتا ہے


خیر مقدم کیا کرتی ہیں اسی کی راہیں

تیرے کہنے کے مطابق جو چلا کرتا ہے


ہر کوئی تو تری جانب نہیں راغب ہوتا

تو جسے چاہے یہ توفیق عطا کرتا ہے


گیت گاتی ہیں بہاریں تری خلّاقی کے

سینۂ سنگ سے جب پھول کھلا کرتا ہے


بڑا ناداں ہے تجھے دور سمجھنے والا

تو رگِ جاں سے بھی نزدیک رہا کرتا ہے

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- لا شریک

دیگر کلام

وہ لا محدود ہے بیرون ہر منزل میں رہتا ہے

دن تیرا نام رات تیرا نام

مولا اپنی لگن میں لگائے رکھنا

میرے اللہ تیری رضا چاہیے

اللہ اللہ کیا کر

تیرے آگے مری جھکتی ہوئی پیشانی سے

مسجدِ نورِ جاں میں پہنچا دے

تو ہے مولا ایک

دنیا سے دین دین سے دنیا سنوار دے

خدا ہے روشنی کا جھونکا خدا ہے

مجھ سے زیادہ کمتر و کوتاہ کون ہے